آسانج نے بالآخر اپنا جاسوسی سے متعلق اپنا جرم قبول کیا کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے امریکی قومی سلامتی سے جڑی معلومات حاصل کیں اور یوں انہیں ایک لمبے قانونی عمل کے بعد آزادی ملی۔
انہیں 62 ماہ کی قید کی سزا دی گئی جو انہوں نے پہلے ہی برطانیہ میں کاٹ لی ہے۔
اسانج کی موکلہ جینیفر رابنسن کے بقول یہ مقدمہ آزادی صحافت کے خلاف تھا۔
سال 2010 میں امریکی راز افشا کرنے کی پاداش میں اسانج کم از کم 175 برس کی سزا کا سامنا کر رہے تھے۔
گرچہ ان کی جانب سے معافی مانگنے اور یہ معاملہ ختم ہوجانے کو کافی حلقے مثبت اختتام قرار دے رہے تھے تاہم دیگر کے خیال میں امریکہ کی جانب سے ان پر جاسوسی کے الزام کا یہ مقدمہ خاصا تشوش کن ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی چیف ایگزیکیٹیو جوڈی گینسبرگ کے بقول خفیہ معلومات تر ذمہ دارانہ انداز میں رسائی دراصل آزادی صحافت کے لیے ضروری ہے۔
پیٹر گرریسٹی میکیوری یونیورسٹی سے وابستہ ہیں جنیہں سال 2013 میں مصر میں صحافتی ذمہ داریوں کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
اسانج اور ان کے ادارے وکی لیکس پر الزام ہے کہ انہوں نے خفیہ امریکی معلومات غیر ذمہ دارانہ انداز میں افشا کیں اور اس سے جڑے افراد کی شناخت کو محفوظ نہ رکھ کر ان کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں۔
پیٹر گرریسٹی کہتے ہیں کہ وہ وکی لیکس کے کام کو سراہتے ہیں تاہم اسے صحافت نہیں قرار دیا جاسکتا۔
وکی لیکس نے امریکی افواج کی جانب سے امریکا اور افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کو بے نقاب کیا۔
گرچہ آسٹریلوی حکومت اور وزیر اعظم انتھونی البنیزی کو ان کی رہائی کا سہرا دیا جاتا ہے تاہم پروفیسر ایما شورٹس کے بقول یہ دہرا معیار ہے کیونکہ آسٹریلوی حکومت خود اپنے ملک میں وسل بلوورز پر مقدمے چلارہی ہے۔
اسی طرح آسٹریلیا میں قومی سلامتی کے امور کے قومی مانیٹر جیک بلائیٹ کہتے ہیں کہ یہاں آزادی صحافت کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
وہ مانتے ہیں کہ قومی سلامتی ایک اہم مدعا ہے لیکن آزادی صحافت کو قربان نہیں کرنا چاہیے۔
ان کے خیال میں وسل بلوورز یا خفیہ معلومات فراہم کرنے والوں کی سکیورٹی کو یقینی بنانا ہوگا۔