دارالحکومت نئی دہلی میں کئے مقامات پر آپ کو مھاتما گاندھی کے مجسمعے نظر آئیں گے تاہم یہاں سے محض 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مختلف قسم کی یادگار موجود ہے جہاں ان کے قاتلوں کی پرستش کی جاتی ہے۔
یہ ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے کا مزار ہے جنہوں نے سال 1948 میں گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔
اشوک شرما اس مزار کے بانی ہیں اور انتہا پسند تنطیم ہندو مہاسبا کے رکن ہیں
وہ اور ان کے ساتھی گاندھی پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت پاکستان اور بھارت کے قیام کے موقع پر مسلمانوں کو زمین دی۔
یہ لوگ ہٹلر کے پرستار ہیں اور بھارت کو ایک ہندو اکثریتی ہندو ریاست کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہندو مھاسبا پر انتہا پسندی کے کئی الزامات لگتے ہیں جن میں گاندھی کے قتل کی دوبارہ تمثیل بھی شامل ہے۔
ان ہی کی طرح بڑی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتہ پارٹی کے بعض ارکان نے بھی گاندھی کے قاتل گوڈسے کو سراہا ہے۔
یونیورسٹی آف دہلی کے پروفیسر اپوروا آنند کے بقول اس کی کئی وجوہات ہیں۔
گاندھی پر یہ مسلسل حملے محض ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ بھارت کی سکیولر شناخت اور عدم تشدد کے فلسفلے پر حملے ہیں جن میں وزیر اعظم نریندرا مودی کے دور میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
ایک انتخابی ریلی کے دوران مودی کی جانب سے مسلمانوں کو درانداز قرار دینے کی پاداش میں خاصی تنقید کی گئی تاہم انہوں نے نفرت آمیز تقریر کے بیان سے متعلق الزام کو مسترد کیا اور تیسری مدت کے لیے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
اپنی حلف برداری سے قبل بھی انہوں نے نئی دہلی میں گاندھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔
تاہم انہوں نے کبھی بھی گاندھی کے مخالفین اور ان کے قاتل کی مذمت نہیں کی۔
اس کے برعکس ان کی کئی پالیسیوں کو ہندو انتہا پسندوں نے سراہا جن میں کشمیر کے خاص اسٹیٹس کو ختم کرنا اور مسلمانوں کی مبینہ زمین پر ہندو مندر کی تعمیر جیسے کام شامل ہیں۔
ان سب کے باوجود بہت سارے بھارتی شہری مانتے ہیں کہ گاندھی ہی ہمیشہ کے لیے ان کے اخلاقی معیار کا محور رہیں گے۔
کمار پراسانت بھارت میں گاندھی پیس فاونڈیشن کے چیرمین ہیں۔
ان کے بقول عدم تشدد کی جنگ اب بھی نفرت کے خلاف نبرد آزما ہے۔